[alg_back_button]

ہندوستان میں مراکز علوم دینیہ                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                 ۱۸۵۷؁ء کا دور وہ پُر آشوب دور ہے کہ ہندوستان کی زمام حکومت انگریزوں کے ہاتھوں میں آچکی تھی ، اسلامی شوکت کے چراغ سے صرف دھواں اٹھتارہ گیا تھا،جو چراغ کے بچھ جانے کا اعلان تھا ۔دہلی کا تخت مغل اقتدار سے خالی ہو چکا تھا ۔اسلامی شعائر رفتہ رفتہ روبزوال تھے۔دینی تعلیم گاہیں اور علمی خانوادے اُجڑ چکے تھے ۔دینی شعور رخصت ہورہاتھا۔جہالت و ضلالت کی گھٹائیں افق ہند پر چھاچکی تھیں۔سنن کی جگہ جاہلانہ رسوم و رواجات نے لیلی تھی۔مشرکانہ بدعات وخرافات اور ہواپرستی زور پکڑتی جارہی تھی ،جس سے دہریت والحاد کی وباء پھوٹ پڑی تھی ،چمنِ اسلام میں خوش آواز پرندوں کے زمزموں کی جگہ زاغ وزغن کی مکروہ آوازوں نے لیلی تھی۔ مسلمان مضطرب و بیچین اور مایوسی کا سکار تھے ، علماء کیلئے پھانسی کے پھندے تھے ، یا جلاوطنی کے مصائب ،امت مسلمہ کے جسم میں عیسائی مبلغین نے الحاد و زندقہ کا زہر پھونک دیا تھا۔ اور اسلام و مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے لئے پوری طاقت کو صرف کر رکھا تھا ۔اللہ تعالیٰ نے ایسی صورت حال میں چند نفوس قدسیہ کے قلوبمیں اس بات کا احساس پیدا کیا کہ ستم رسیدہ مسلمانوں کے ملّی وجود کے تحفظ اور علوم نبوت اور اسلامی معاشرہ کو بچانے کے لئے کیا صورت اختیار کی جائے ۔؟چنانچہ علماء دیوبند کی جماعت کے سرخیل حجۃ الاسالم حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی قدس سرّہ‘ اور دیگر اکابرین کمرِ ہمت باندھ کر میدان میں آئے جو رسمی قسم کے لیڈر نہ تھے ۔ بلکہ خُدا رسیدہ بزرگ اور اولیاء وقت تھے ۔چنانچہ اشارہ غیبی کے تحت یہ تجویز پاس ہوئی کہ ایک دینی درسگاہ قائم کی جائے اور اس کی تعلیم وتربیت اور علم وعمل کے ذریعہ ڈوبتے ہوئے مسلمانوں کو سہارا دے کر دلوں کی مردہ زمینوں کو زندہ کیا جائے ۔
چنانچہ اسی جذبہ کے تحت دارالعلوم دیوبند ۔ مظاہرعلوم سہارنپور۔مدرسہ شاہی مراد آباد اور دیگر مدارس کی بنیاد رکھی ۔ تاکہ ستم رسیدہ مسلمانوں کے اندرعلمی روح پھونکی جاسکے ۔اور ان کے ملی تحفظ کا کچھ ذریعہ ہوجائے ۔اور باشبہ ان مدارس نے عقائد کی تصحیح ،الحاد و دہریت کا مقابلہ اور نابغئہ روزگار شخصیات تیار کرنے میں وہ تمایاں خدمات انجام دی ہیں جو بڑی سے بڑی یونیورسٹی نہیں کر سکتی ۔
چنانچہ ان مدارس کے فضلاء نے اعلاء کلمتہ اللہ ، دین الٰہی کی نشر واشاعت اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بطریق احسن انجام دینے کے لئے متعدد مقامات پر مدارس دینیہ قائم کئے اور اپنے خطہ اور قرب و جوار کے مسلمانوں کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بھنور سے نکالا۔ اور احقاقِ حق اور ابطال باطل کا فریضہ انجام دیا۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ’’جامعہ عربیہ امددالاسلام‘‘ کمال پور ڈاکخانہ دریاپور ضلع بلندشہرہے ۔

کمال پور
بلند شہر سے ہاپوڑ روڈ پر بانچ کلومیٹر کے فاصلہ پر لب سڑک ہی پر کمال پور نامی بستی واقع ہے ۔ جس کے چاروں طرف تقریباًپچاس مسلمانوں کی بستیاں ،قصبات اور بلندشہر آباد ہے ۔ اس پورے علاقہ کے مسلمان دینی ،مذہبی ،ملکی ، معاشرتی،قومی،تبلیغی،امور میں گرمجوشی سے حصہ لینے کے عادی ہیں ، اور معاشی اعتبار سے کھاتے پیتے اور خوشحال انسان ہیں۔لیکن ان تمام باتوں کے باوفود یہ پورا علاقہ کسی اسلامی درسگاہ کے وجود سے خالی تھا۔ اور ملت کا درد رکھنے والے انسانوں کے قلوب اس کی شدید ضرورت محسوس کر رہے تھے ۔

جامعہ عربیہ امدادالاسلام کا قیام
چنانچہ مورخہ۲۵/جمادی الثانی ۱۳۹۸؁ھ مطابق ۳/جون۱۹۷۸؁ء بروز پنجشنبہ کمال پور کی ایک چھوٹی سی مسجد میں بے سروسامانی کی حالت میں جامعہ عربیہ امدادالاسلام کے نام سے ایک درسگاہ قائم ہوگئی۔اس جمعہ کی اتدائی تاریخ بڑی دِلسوز ہے ۔مذکورہ مسجد میں ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں بمشکل تمام دو چار پائیاں آسکتی تھیں ۔اس میں چار پانچ اساتذہ رات کو قیام فرماتے تھے ۔اور طلبہ کے قیام کے واسطے مسجد کی چھت پر ٹرپال ڈال رکھا تھا ۔ وہ اس میں قیام کرتے تھے ۔ کچھ اہلِ خیر حضرات نے اپنی بیٹھکیں اِن مہمانانِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)کے ساسطے مستعار دے رکھی تھیں۔غرض تمام اساتذہ و طلبہ و اراکین اسی بے سروسامانی کی حالت میں دین اسلام کی خدمت میں مصروف منہمک تھے ۔تمام بستی والوں کے مشورہ سے شروع ہی میں جناب انوار حسین صاحب جامعہ ہذا کے ناظم ِ اعلی اور مہتمم تجویز کے گئے ۔جنکو خداتعالیٰ نے روزِ ازل ہی میں اس خدمت کے واسطے منتخب کر رکھا تھا ۔چنانچہ موصوف ہی روزِ اول سے جامعہ ہذا کے ناظم اعلیٰ اور مہتمم چلے آرہے ہیں ۔

جامعہ ہذا کا مسجد سے جدید آراضی میں آغاز
اولا جامعہ ہذا کے جملہ انتظامی اور تعلیمی امور مسجدہی میں انجام پذیر ہوتے رہے ۔بعد میں جب کام زیادہ ہوگیا اور طلبہ کی تعداد میں بھی معتدد بہ اضافہ ہوگیا تو باوجود پریشانی کے طلبہ واساتذہ کے لئے مسجد ناکافی رہی تو بستی کے اہلِ نظر و فکر حضرات جمع ہوئے اور باہمی مشورہ سے یہ طے ہوا کہ اب جامعہ کے واسطے مستقل زمین خرید کر جامعہ کو وہاں قائم کرنا چاہئے ۔چنانچہ تمام لوگوں کے مشورہ سے لب ِ سڑک ایک کھیت خرید لیا گیا اور اس میں جامعہ کے کام کا آغاز کر دیا گیا اس کے بعد سنگ بنیاد کا مسئلہ سامنے آیا کہ اس عظیم ادارہ کی بنیاد کے لئے کسی ایسی عظیم شخصیت کو مدعو کیاجائے جو علم و عمل ،زھد و ورع ، تقوی و طہارت،اور عبادت و ریاضت میں منفرد اور ہم قرن و ہمعصر پر فائق ہو۔چنانچہ اس عظیم کام کے لئے نمونہ اسلاف حضرت الحاج مولانا انعام الحسن صاحب کاندھلوی ؒرئیس التبلیغ مرکز نظام الدین نئی دہلی و خلیفہ اجل قطب الاقطاب شیخ المشائخ حضرت الحاج مولانا محمد زکریا صاحبؒسابق شیخ الحدیث جامعہ عربیہ مظاہر علوم سہارن پور کا نام نامی اسم گرامی تجویز کیا گیا ۔چنانچہ حضرت کو دعوت دی گئی اور وقت مقررہ پر حضرت تشریف لائے موصوف کی زیارت کے واسطے قرب و جوار کے مسلمانوں کا سیلاب امنڈ آیا تھا اور حاضرین کا ایک عظیم ہجوم تھا موصوف نے تمام حاضرین کے سامنے تقریر فرمائی بعد ازاں خرید کردہ آراضی کے ایک کنارہ پراپنے دستِ مبارک سے سنگِ بنیاد رکھا۔پھر بارگاہِ ایزدی میں دعا کے واسطے ہاتھوںکو اٹھایا اور حضرتِ والاکے ساتھ تمام حاضرین کے ہاتھ بھی اٹھے ہوئے تھے۔گرمی کا موسم تھا،دھوپ انتہائی تیزی پر تھی ،اور تمام مسلمان حضرت والا کے ساتھ بارگاہِ الہی میں اپنے ہاتھو ں کو اٹھا کر مولائے کریم سے یہ التجا ء کررہے تھے ۔کہ خدایا اس ویران جنگل کو تشنگانِ علوم دینیہ اور طالبانِ علوم سے آباد کرنا ۔پورے آدھ گھنٹہ یہ دعا ہوتی رہی تمام حاضرین کی آنکھیں اشکبار تھیںشاید بارگاہِ اِلٰہی میں اس دعا کی قبولیت ہی کا یہ اثر ہے کہ مختصر مدت میں جامعہ ہذا نے وہ نمایاں ترقی کی ہے۔ جس کو دیکھ کر حیرت تعجب ہوتا ہے اور اسکو خدا و ند قدوس کی قدرت کاملہ کرشمہ ہی کہا جا سکتا ہے ۔خدا اس گلشنِ محمدی کو تادیر قائم رکھے ۔اور اسکے نفع کو عام و تام فرمائے ۔(آمین)