ویڈیو گیلری
مدرسے کے خوبصورت نظارے
مجلس انتظامیہ
جناب مولانا عبد القادر صاحب
ناظم تعلیمات
جناب مولانا عبد القادر صاحب
ناظم تعلیمات
جناب مولانا عبد القادر صاحب قاسمی بلرام پوری ، ایک جید عالم دین، صاحب ورع و تقوی ،خوش اخلاق ، منکسر المزاج، صالح و متدین شخص ہیں ۔ آپ کی ابتدائی تعلیم مدرسہ فرقانیہ گونڈا میں ہوئی اور دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد موصوف ایک عرصے سے مدرسہ ہذا میں خدمت انجام دے رہے ہیں ۔تفسیر و حدیث اورفقہ وادب کی متداول اور اہم کتابوں کی تدریس کے ساتھ جامعہ میں نظامت تعلیم کے فرائض بھی بحسن و خوبی ادا کر رہے ہیں ۔آپ کی بلند ہمت اور مخلصانہ جدوجہد سے مدرسہ اس وقت ترقی کے نئے منازل طے کر رہا ہے۔
جناب مفتی محمد اکرم صاحب
شیخ الحدیث
جناب مفتی محمد اکرم صاحب
شیخ الحدیث
جناب مفتی محمد اکرم صاحب قاسمی بلندشہری، ایک ذی استعداد ،ماہر علم وفن،صاحب زبان و ادب اور درس و تدریس کی غیر معمولی
صلاحیتوں کے مالک ہیں ۔ آپ کی ابتدائی تعلیم اسی ادارے میں ہوئی اور دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کرنے کے بعد یہیں پر خدمت انجام دے رہے ہیں ۔فقہ و حدیث کی اہم کتابوں کی تدریس کے ساتھ ساتھ مدرسے کے شیخ الحدیث کے عہدے کو آپ نے زینت بخشی ہے ۔نیز مدرسےکی حالیہ ترقیات میں مفتی صاحب کا ایک اہم کردار ہے۔
- Email:akrambarni19@gmail.com
جناب مفتی محمد اسجد صاحب
صدر المدرسین
جناب مفتی محمد اسجد صاحب
صدر المدرسین
محترم جناب مفتی محمد اسجد صاحب قاسمی بلندشہری ، ایک قابل استعداد ، مقبول عوام و خواص، معتبر اور مستند عالم دین ہیں ۔جو اس مدرسے میں درس و تدریس کی قابل قدر خدمات انجام دیتے ہوئے صدارت افتاء اور صدارت مدرسین کی ذمہ داریوں کو بھی اپنی خداداد صلاحیتوں سے بخوبی ادا کررہے ہیں ۔ موصوف کی ابتدائی تعلیم از حفظ تا مشکوۃ بھی اسی ادارے میں ہوئی اور اس کے بعد دارالعلوم دیوبند میں علوم عالیہ و آلیہ کی تکمیل کے بعد اسی ادارے میں اپنے علمی کمالات کے ذریعے تشنگان علوم نبوت کی پیاس بجھا رہے ہیں ۔بخاری شریف ترمذی شریف اور مشکوۃ شریف جیسی اہم کتابیں آپ کے زیر درس ہیں۔نیز علاقہ بلند شہر و اطراف میں آپ کی تبلیغی کوششیں بھی کسی سے مخفی نہیں ہیں۔
جانب مولانا محمد حسن صاحب
کارگذار مہتمم
جانب مولانا محمد حسن صاحب
کارگذار مہتمم
جناب مولانامحمد حسن صاحب کا شمار ضلع بلند شہر کے ان چنندہ علماء میں کیا جاتا ہے جنہوں نے عوام و خواص کی فلاح و بہبود کے لیے مختلف جہات سے کوشش اور محنتیں کی ہیں ۔ اور اپنی زندگی کے قیمتی سرمائے کو اصلاح معاشرہ کی خاطر قربان کیا ہے ۔یہ مدرسہ عربیہ امداد الاسلام کمال پور کی ابتداء ہی سے اس کے ایک رکن رکین رہے اور اس مدرسے کی تعمیر و ترقی میںہر موڑ پراپنے بڑے بھائی اور مدرسے کے مہتمم جناب بابوجی انوارحسین صاحب کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلتے رہے۔درس و تدریس ، نظم و ضبط ، اور مدرسے کے داخلی اور خارجی امور کو جس حسن و خوبی کے ساتھ مولانا نے انجام دیا ہےاورباوجود ضعف و علالت کے اب بھی انجام دے رہے ہیں ، واقعی وہ اپنی مثال آپ ہے۔
پیدائش اور تعلیم : مولانا کی پیدائش ۱۲ دسمبر ۱۹۴۳ ء کو ضلع بلند شہر کے موضع کمال پور میں ہوئی ۔ والد جناب نظیر احمد صاحب کی یہ نیت تھی کے ایک بیٹا مولوی اور ایک بیٹا بابو بنے ۔ چنانچہ مولوی بننے کی قسمت مولانا کے حصے میں آئی اور اسی کے مطابق بچپن سے تعلیم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس وقت علاقے میں ایک بہت ہی مشہور و معروف استاذ جناب حافظ محمد عاقل صاحب گیسو پوری تھے، جو موضع اڈھولی اور کمال پور کی مختلف مسجدوں میں امام رہے، مولانا نے ناظرہ اور حفظ قرآن ان ہی کے پاس مکمل کیا ۔ اس کے بعد کالی مسجد بلند شہر میں جناب مولانا صدیق حسن صاحب کے پاس عربی و فارسی کی تعلیم شروع کی اور شرح جامی تک وہیں پڑھے۔پھر دار العلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور سال ۱۹۶۷ء میں دورہ حدیث شریف سے فراغت ہوئی ۔
اساتذہ : دارالعلوم دیوبند کے زمانے میں مولانا نے اس وقت کےاکابر علماء اور اساتذہ سے تلمذ کا شرف حاصل کیا ۔بخاری شریف حضرت مولانا سید فخرالدین مرادآبادی سے پڑھی ۔ اس کے علاوہ مولانا کے اساتذہ میں جناب قاری محمد طیب صاحب، جناب مولانا بشیر احمد خاں صاحب بلند شہر ی، جناب مولانا نصیر احمد خاں صاحب بلند شہری ، مولانا وحید الزماں صاحب کیرانوی ، جناب مولانا محمد حسین صاحب بہاری کے نام نامی شامل ہیں ۔
ہمدرس علماء : جناب مفتی محمد ابوالقاسم صاحب بنارسی ( مہتمم دارالعلوم دیوبند ) ، مفتی محمد خالد صاحب دیوبندی( شہر قاضی خورجہ) ، مولانا یوسف صاحب میرٹھی ( دفتر جمعیۃ علماء ہند دہلی )، مولانا رفاقت علی چندیانہ ، مولانا شمیم صاحب اکبرپوری، نیزجناب مولانا محمد عمر صاحب مظفر نگری بھی آپ ہی کے زمانے میں دارالعلوم دیوبندمیں زیر تعلیم تھے۔
عملی میدان : فراغت کے بعد تقریباً سوا سال دادری جامع مسجد میں امامت کی ،پھر اتنے ہی وقت سیانہ چودھریان مسجد میں امام رہے ۔ اس کے بعد مولانا مدرسہ امدادالاسلام کمال پور سے متعلق ہو گئے اور ابھی تک اسی مدرسے میںاپنی بیش بہا خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مدرسے میں مولانا نے مختلف جہات سے کام کیا ہے ۔ درس و تدریس میں کنز الدقائق ، نورالایضاح ، قدوری، مالابد منہ وغیرہ کتابیں آپ
کے زیر درس رہیں ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بھی مولانا نے کافی دن تک گھڑی سازی کا کام کیا اور پھر ایک کتب خانہ شروع کیا جو دانش بک ڈپو کے نام سے آج بھی چل رہا ہے ۔
جمعیۃ علماء ہند : شروع ہی سے مولانا کا جمعیۃ علماء ہند سے خاص تعلق رہا اور تقریباً ۲۰ سال تک ضلع بلند شہر کے جنرل سیکریٹری کے عہدے پر فائز رہے ، اس کے علاوہ صوبہ یوپی کے سیکریٹری کے طور پر بھی خدمات انجام دیں ۔مولانا نے ضلعی سطح پر جمعیۃ کو آگے لے جانے کے لئے بڑی محنت اور جاں فشانی کے ساتھ کام کیا ۔ اس دور میں بلند شہر کر اندر ہونے والی جمعیۃ کی کانفرنسیں تاریخی ہیں جن کےفوائد و ثمرات آج بھی موجود ہیں ۔
دیگر ذمہ داریاں : رابطہ مدارس اسلامیہ دارالعلوم دیوبند کےتعلق سے مسلسل مدارس اسلامیہ کی تعمیر و ترقی کے لیے فکرمند ہیں ، مدرسہ امداد الاسلام کمال پور میں محکمہ شرعیہ کے قیام اور اس کے نفاذ میں پیش پیش رہے ، کافی زمانے سے بلند شہر اسپتال والی مسجد میں بلا معاوضہ جمعہ کی نماز و خطابت کی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں ، اس کے علاوہ امامت کے دور سے لےکر اب تک تفسیر قرآن سے خاص شغل رہا اور مختلف مساجد میں اس کار خیر کو لوجہ اللہ انجام دیا ہے ۔ مولانا کا تفسیری بیان اور افہام و تفہیم کا انداز لوگوں میں کافی مقبول ہے ۔ یہ فن آپ کو اپنے استاذ جناب مولانا صدیق حسن صاحب سے وراثت میں ملا ہے ۔
دیگر اشغال : علماء و صلحاء کی صحبت اور مطالعہ و کتب بینی آپ کے خاص اشغال ہیں ۔ فارسی زبان میںکافی مہارت حاصل ہے ۔ شعر و ادب کا بھی شوق رکھتے ہیں۔ اردو اور فارسی کے کافی اشعار آپ کو زبانی یاد ہیں ۔گاہے بگاہے خود بھی شعر کہتے ہیں اور فوق تخلص رکھتے ہیں ۔
اولاد : مولانا کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ۔ ایک بیٹے حافظ محمد دانش ہیں جو کتب خانہ سنبھال رہے ہیں ، دو بیٹے محمد شاہد او ر محمد مشیر سرکاری ٹیچر ہیں ، اور ایک بیٹے محمد ساجد سعودی عرب میں ملازم ہیں ۔مولانا کے ایک نواسے مفتی محمد راغب املیا ہیں ، جو کافی ذہین اور ذی استعداد عالم ہیں ۔
جناب بابوجی انوار حسین صاحب
بانی و مہتمم
جناب بابوجی انوار حسین صاحب
بانی و مہتمم
جناب بابوجی انوار حسین صاحب بلند شہر کی ایک مشہور و معروف شخصیت ہیں،جو اس مدرسے کے بانی بھی ہیں اور روز اول سے ہی اس کے اہتمام کی ذمہ داری بحسن وخوبی ادا کر رہے ہیں ۔آپ کی پیدائش ۱۹۴۰ ء میں بلند شہر کے موضع کمال پور میں ہوئی ۔ والد جناب نظیر احمد صاحب ایک نیک اور خدا ترس انسان تھے ،انھوں نے اپنے دونوں بیٹوں کے بارے میں یہ فیصلہ کیا کہ ایک بیٹے کو دینی علم پڑھائوںگا یعنی مولوی بنائوں گا ،جبکہ دوسرے کو دنیاوی علم پڑھائوںگا یعنی بابوجی بنائوں گا۔ لہذا دنیوی علوم پڑھنے کی قسمت بڑے بیٹے کے حصے میں آئی اور وہی بڑے ہوکر بابوجی انوار حسین کے نام سے مشہور ہوئے ۔بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بابوجی کو سیل ٹیکس ڈپارٹمنٹ سرکاری ملازمت مل گئی اور ملازمت کے پورے عرصے کو انتہائی امانت و دیانت کے ساتھ گذارا ۔ دوسری طرف قوم و ملت کی فکر اور تعلیمی بیداری کی کی لگن بھی دل میں لگی ہوئی تھی اور یہ نیت تھی کہ علاقے میں کوئی دینی ادارہ قائم کیا جائے تاکہ دین اور علم دین کی فضا قائم ہو ۔ چنانچہ اپنی اس دیرینہ آرزو کو عملی جامہ پہناتے ہوئے سن ۱۹۷۸ ء میں گائوں کمال پور ہی میں محلہ کی مسجد کے قریب خاندان کی چوپال میں انتہائی بے سر وسامانی کی حالت میں یہ مدرسہ شروع کیا ۔یہ آپ کے اخلاص اور حد درجہ کی کوششوں کا ہی نتیجہ تھا کہ مدرسہ دن بدن ترقی کی منزلیں چڑھتا گیا اور جلد ہی گائوں کے باہر ایک مستقل زمین میں مدرسے کی بنیاد ڈال دی گئی ۔تب سے آج تک مدرسہ الحمد للہ پوری آب و تاب کے ساتھ دین کی خدمت میں مشغول ہے اور یہ سب محترم جناب بابوجی انوار صاحب کے خلوص قلب اور مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہے ۔